جب آگرہ جیل میں یوم اقبال منایا گیا
صاحب زادہ محمد زابر سعید بدر
آج صبح جب روزنامہ جنگ میں سپر لیڈ پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ بھارتی سرکار نے حریت کانفرنس اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے تمام بڑے مسلمان رہنماؤں کو آگرہ جیل منتقل کر دیا ہے.آگرہ سے ویسے تو تاج محل اور چچا غالب کی یاد آتی ہے لیکن چند روز ادھر کی بات ہے کہ بریگیڈئر صدیق سالک کی کتاب” ہمہ یاراں دوزخ “کا مطالعہ کر رہا تھا یہ کتاب ان کی پہلی کتاب “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا”Witness to surrender کا تسلسل ہی ہے. ہمہ یاراں دوزخ کو “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” کا دوسرا حصہ کہا جاسکتا ہے.جناب صدیق سالک والد گرامی جناب سعید بدر کے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اورنٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی میں کلاس فیلو بھی تھے. پاکستان کے سابق صدر جنرل محمد ضیاءالحق کے دورحکومت میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز
( ISPR) کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور ان کے ساتھ ہی 17 اگست 1988 کو بہاولپور کےقریب سی ون 30 کریش میں اپنے رب کے حضور پیش ہوئے. میں اپنے طالب علموں کو ہمیشہ یہ دونوں کتابیں پڑھنے کا ضرور مشورہ دیتا ہوں تاکہ انہیں سانحہ مشرقی پاکستان کی اصل وجوہات کا اندازہ ہو سکے کیونکہ اس کتاب کا مصنف ان واقعات کا عینی شاہد بھی ہے اور ایک ایسا فوجی افسر ہے جو اس وقت مشرقی محاذ پر جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی پر تھا.
جناب صدیق سالک اپنی کتاب “ہمہ یاراں دوزخ” میں لکھتے ہیں کہ ہم نے نے آگرہ جیل میں یوم اقبال منا ڈالا کیونکہ حضرت علامہ اقبال سے انھیں بہت عقیدت تھی اور یہ عقیدہ صرف ان کو ہی نہ تھی بلکہ وہاں موجود تمام فوجی افسران کو بھی تھی لیکن یہ یوم اقبال سخت گرمی میں منایا گیا اور وہ حیران ہیں کہ چند ہفتے پہلے تک آگرہ کا موسم بہت معتدل تھا لیکن اچانک ہی بہت گرم ہو گیا. پاکستان کی تاریخ پر مشتمل اس اہم حوالہ جاتی کتاب کے صفحہ 130 پر لکھتے ہیں
“کتابوں کی قحط سالی میں میجر جعفر بڑے خوشحال نکلے – ان کے پاس 6 کتابیں تھیں – بلامبالغہ پوری 6- ان موضوعات میں زیادہ تنوع نہ سہی ، عمدہ ذوق کی تسکین کا سامان ضرور تھا – آپ ان کتابوں کی مدد سے اسلام کا نظریہ ، امام غزالی کا فلسفہ ، علامہ اقبال کی شاعری اور اسد اللہ خاں غالب کے حالات سے باخبر ہوسکتے تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ساقی بڑا دریا دل تھا – جام پہ جام دینے کی بجائے مینا بھی لنڈھانے کو تیار تھا -اگر ایک بانگ درا پڑھ کر واپس کرتا ، تو میجر جعفر کہتے ” بال جبریل لے جائیے ، بانگ درا سے بڑھ کر ہے ”
میجر جعفر کی اس فیاضی کا شکر کیوں کر ادا کیا جائے ! ہم نے میجر جعفر کی کتابوں کا سہارا لے کر سینٹرل جیل آگرہ میں یوم اقبال مناڈالا -حضرت اقبال کے متعلق سوجھ بوجھ زیادہ نہ سہی لیکن عقیدت بہت تھی – چنانچہ ہر کسی نے اس تقریب میں شرکت کرنا چاہی – ایک صاحب نے بتایا کہ میں نے کالج کے زمانے میں ایک مرتبہ اقبال کے فلسفہ خودی پر تقریر کی تھی ، لہذا میں آپ کو خودی کے معانی سمجھاؤں گا – ایک دوسرے صاحب بولے ” میں فوجی مصروفیات کے ساتھ ساتھ فلسفہ کا مطالعہ کرتا رہا ہوں میں علامہ کے فلسفے کی گتھیاں سلجھاؤں گا اس طرح کی چار پانچ پیش کشوں کے بعد ہم ایک صبح ایک بیرک میں جمع ہوئے .
ایک سینیئر افسر کو صدر مقرر کیا اور جلسے کی کارروائی کا آغاز تلاوت قران پاک سے کیا – کسی نے اقبال کے فلسفہ خودی پر تقریر کی – تو کسی نے “اقبال “کے مرد مومن کے موضوع پر مقالہ پڑھا – کسی نے ان کے فلسفی ہونے پر زور دیا تو کسی نے ان کے شاعر ہونے پر – یہ تقریب کوئی دو گھنٹے جاری رہی – تقریب کے اختتام پر ایک ساتھی نے علامہ اقبال یہ اشعار گا کر ہمارے حوصلے بلند کردیے.
ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند
قطرہ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند
مشک از فر چیز کیا ہے ، ایک لہو کی بوند ہے
مشک ہوجاتی ہو گر نافہ آہو میں بند
ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دامن قفس سے بہرہ مند
شہپر زاغ و زغن در بند قید و صید نیست
ایں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند
یوم اقبال ادبی طور پر ہی نہیں موسمی لحاظ سے بھی تقریبا موسم بہار میں پڑتا ہے – لیکن آگرہ میں یوم اقبال کے موقع پر خاصی گرمی تھی – ، گویا آتش گل کے بجائے آتش آفتاب برس رہی تھی.
کس سے پوچھیں بہار کی باتیں
اب صبا بھی ادھر نہیں آتی
حوالہ: ہمہ یاراں دوزخ…. صدیق سالک
سروسز بک کلب, جی ایچ کیو, راولپنڈی