ووادی خرد سے وادی جنوں تک
صاحب زادہ محمد زابر سعید بدر
علم کیا ہے؟ ایک نور, تجلی روشنی… جہالت, اندھیرا, تاریکی دور کرنے والا محرک.. عقل کیا ہے؟ شعور کیا ہے؟ مادہ کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ یہ سوالات پچپن سے میرے اندر رہے ہیں, نور کو سمجھنے میں بہت وقت لگا, مادے کا طلسم اپنے ساتھ بہاتا رہا لیکن ٹھہراؤ ” تجلی” میں تھا. روح میں طمانیت کا میٹھا سا احساس, علامہ کا جب یہ شعر پڑھا کہ:
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
مادے کے ساتھ بھاگ رہا تھا کہاں سمجھ آتی. سمجھ کے لیے ادب چاہیے, محبت چاہیے, عشق چاہیے. میرے اعمال تو مادے کے لیے تھے. لڑکپن میں روح کی ماہیت پر ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ اچانک جسم (مادے) پر لرزہ طاری ہو گیا.رات کے تین کا وقت تھا انکل منظر بشیر جاگ رہے تھے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا ابھی مت پڑھیے. چھوڑ دیا….
کشمکش جاری تھی. عقل و عشق کی کشمکش
پھر علامہ آن موجود ہوئے
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
تسلی ہوئی کہ علامہ نے ” کبھی کبھی” کہا ہے. انہی دنوں علامہ کے ساتھ “وادی جنوں” بھی گھوما بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات ہوئی…
صوفیا کے ساتھ ہمیشہ سے قلبی سا تعلق رہا. مجھ پر شفقت فرماتے رہے. کبھی ناراضی بھی محسوس کی تو معافی مانگنے پر فراخی سے معاف کر دیا
یہ لوگ بڑے فراخ ہوتے ہیں کیونکہ یہ رب کے ہوتے ہیں.ویسے ہم سب رب کے ہیں لیکن یہ رب کے “خاص” ہوتے ہیں.رب بھی بڑا فراخ ہے وہ سب سے بڑا فراخ ہے اور صرف اس اکیلے ایک جہاں کا نہیں بلکہ سارے جہانوں کا مالک و مختار ہے.
بندہ بھی ایک “جہاں” ہے. ایک زمین میں کئی جہاں ہیں اس نظام شمسی میں کئی جہاں ہیں.
اس معلوم کائنات میں کئی نظام شمسی ہیں اور ہماری کائنات جیسی اربوں کھربوں کائناتیں اور ہیں.ہمارا رب ان سب کا رب ہے.
وہ کہتا ہے کہو :
الحمد للہ رب العالمین
پھر وہ کہتا ہے کہ :
وما ارسلناک الا رحمتہ للعالمین
بس یہی سب کچھ ہے. علم اور عشق کی یہی کہانی ہے. بات سمجھنے کی نہیں بلکہ عشق کی ہے
علامہ بڑے آدمی ہیں عشق کی ابدی راہ کے نمایاں مسافر
جبھی تو کہتے ہیں
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
یہی بات تو جناب شمس الدین تبریز رحمتہ اللہ علیہ نے مولانا جلاالدین رومی صاحب سے فرمائی تھی
میرے دادا جان سائیں حکیم محمد یعقوب منیر عظیمی جی نے بھی یہی فرمایا
عشق دی منزل بڑی اوکھی اے
علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
Knowledge is a snake for you (your enemy) if you use it, to increase your material body.
If knowledge is used for the improvement of Soul, then it is your friend.
صاحب زادہ محمد زابر سعید بدر
5 نومبر 2019, لاہور