پاکستانی قومیت پر پوسٹ میکالائی اثرات…ایک جائیزہ:
صاحب زادہ محمد زابر سعید بدر
تھامس باربنگٹن میکالے(1859-1800) Thomas Babington Macaulay دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کا سیکٹری آف وار (SECRETARY OF WAR) رہا. جو لارڈ میکالے کے نام سے زیادہ معروف ہے. اپنی فہم و فراست کی وجہ سے تاج برطانیہ کی پالیسیوں میں خاصا دخیل تھا.. اس شخص نے جو “کالے انگریز” تخلیق کیے اس کی سزا آج بھی یہ خطہ بھگت رہا ہے…کولونیل زمانے (COLONIAL ) کے اس شیطانی پالیسی ساز نے جو پالیسی دی وہ تو سامراجی نظام کی ضرورت تھی لیکن آزادی کے بعد اس کی قطعاً ضرورت نہ تھی…. ہوا یہ کہ سامراج تو چلا گیا لیکن مابعد سامراجی نظام(POST COLONIAL) اور اس کے اثرات ہماری جان نہیں چھوڑ رہے…عقل کے اندھے سمجھ نہیں پا رہے کہ کوئی بھی زبان شعور بیدار نہیں کرتی…. اس کےلیے ثقافت کا ایک کردار ہے جو اس علاقے میں کئی صدیوں سے پروان چڑھا ہوتا ہے اور مقامی زبان میں یہ خاصیت ہوتی ہے جو کسی بچے کو اس سماج کے لیے قابل قبول بناتی ہے…. وگرنہ ” کالے انگریز” ہی بنتے ہیں جو لارڈ میکالے کا منشا تھا….
تعزیرات ہند کا ہم اکثر ذکر سنتے ہیں اور بخوبی آگاہ ہیں جو لوگ بھی بر طانوی ہند کی تاریخ کو پڑھتے ہیں یہ حوالہ بار بار آتا ہے۔ یہ فوجداری قوانین کا ایک جامع مجموعہ ہے جس کا مقصد قانون فوجداری کے تمام اہم مسائل کا احاطہ کرنا ہے۔ اس قانون کا مسودہ 1860ء میں تیار کیا گیا تھا جس کے پیچھے برطانوی بھارت کے پہلے قانونی کمیشن کی سفارشات کارفرما تھیں۔ یہ کمیشن بھی 1834ء میں چارٹر ایکٹ 1833ء کے تحت تھامس باربنگٹن میکالے کی صدارت میں قائم ہوا تھا۔یہ فوجداری قانون برطانوی ہندوستان میں 1862ء نافذ کیا گیا تھا.
لارڈ میکالے نے برطانوی پارلیمان میں 2فروری 1835ء کو اپنے خطاب میں کہا، ’’میں نے ہندوستان کے ہر حصے کا دورہ کیا ہے۔ مجھے وہاں کوئی بھکاری اور چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں بہت خوشحالی ہے۔ لوگ اخلاقی اقدار سے مالا مال ہیں، بہترین سوچ کے حامل باشندے ہیں, ہم اس وقت تک اس ملک کو تسخیر نہیں کرسکتے جب تک انہیں مذہبی اور ثقافتی طور پر تقسیم نہ کر دیا جائے، جو کہ ان کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے میری یہ تجویز ہے کہ ہم ان کا قدیم نظامِ تعلیم بدل دیں۔ اگر ہم ہندوستانیوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ کہ غیر ملکی اشیا مقامی اشیا سے بہتر ہیں تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھودیں گے اور حقیقت میں ہماری مغلوب قوم بن جائیں گے، جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں‘‘۔
اس کی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے بعد ہندوستان کے لوگوں میں اپنی زبان، ثقافت اور تہذیب و تمدن کے بارے میں نفرت پیدا ہوتی چلی گئی اور مقامی افراد نے ترقی کا ضامن اپنے زبان کی بجائے انگریزی زبان کو سمجھنا شروع کردیا۔ یہی سوچ پاکستان میں آج تک جوں کی توں ہے اور بطور ایک سوشل سائنٹسٹ اور استاد میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ اب کبھی بھی ایسا ممکن نہیں… یہ نام نہاد قوم کبھی درست معنوں میں قوم کبھی نہ بن سکے گی کیونکہ اسکی سمت درست نہیں ہے…
#صاحبزادہ_محمد_زابر_سعید
13 فروری 2020
لاہور.