بکھرتا میڈیا اور بکھرتا سماج
صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر
صحافت معاشرے کا آئینہ ہوتی ہے اس کا کردار معاشرے کی درست سمت نمائی ہے. لیکن افسوس صحافت کا کردار عموما اس کے برعکس رہا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ صحافت نے ہمیشہ امپیریلزم کی حمایت ہی کی ہے. آجکل صحافت سرمایہ داروں کے بڑے گروپس کے دربار کی باندی ہے اسے جو کہا جاتا ہے اور جتنا کہا جاتا ہے وہی کرتی ہے اور کر سکتی ہے اس کے باوجود اہل دل اپنی سی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ جتنا کر سکتے ہیں وہ معاشرے کی خدمت میں اپنا حصہ ڈال سکیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صحافت صرف اس صورت میں موثر ثابت ہو سکتی ہے جب اسے آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا جائے صحافت اور معاشرے کا چولی دامن کا ساتھ ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ صحافت معاشرے کا آئینہ ہے صحافت اگر صحیح نہج پر ہو تو یہ ایک ناصح اور استاد کا کردار ادا کر سکتی ہے اور اگر اس کی اپنی سمت درست نہ ہو تو یہ پورے معاشرے کو ایک ایسی دلدل میں پھینک سکتی ہے جس سے نکلنا ممکن نہیں. پہلے وقتوں میں صحافت اخبار نما رسالوں یا ماہناموں کا نام تھا جب اس نے ترقی کی تو روزنامہ کی شکل اختیار کرلی. لیکن الیکٹرونک میڈیا پر حکومتی کنٹرول برقرار رہا آہستہ آہستہ دنیا گلوبل ولیج کی صورت اختیار کرتی گئی.معاشرے ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے ایک دوسرے کے خیالات کا احترام پیدا ہوا. بے شمار ریڈیو سٹیشن, ٹی وی چینلز آئے. انٹرنیٹ نے تو گویا صحافت کا رخ ہی موڑ دیا. انٹرنیٹ بڑے بڑے مانیٹرز اور سی پی یوز سے سکڑتا ہوا چھوٹی سی ڈیوائس میں چلا آیا آپ اسے بجا طور پر عصر حاضر کا طلسم ہوش ربا کہہ سکتے ہیں. اب ہر شخص کے ہاتھوں میں ایک فون کی صورت میں پورا کمپیوٹر یا جام جم موجود ہے. صحافت سے مراد اب صرف اخبارات اور رسائل نہیں بلکہ ٹیلی ویژن چینلز, ریڈیو,انٹرنیٹ اور تمام سوشل میڈیا لیا جاسکتا ہے, معاشرے کو اگر یہ صحیح ڈگر پر چلانا چاہے اس سے بہتر استاد اور کوئی نہیں اور بگاڑنا چاہیے یہ شیطان کو بھی مات دے سکتی ہے. اب اتنی طاقتور شےکو کنٹرول کیا جانا بھی ضروری ہے آخر اس کو کنٹرول کون کرے کیا حکومت کنٹرول کرے یا عوام … آج کل تو اخبارات اور ٹی وی چینلز کے چینز CHAINS کی صورت میں چند با اثر افراد ایجنڈا سیٹ کرتے ہیں اور گیٹ گیپنگ تھیوری کو اپلائی کر کے رائے عامہ کو تبدیل کرتے ہیں.یہ سرمایہ دار معاشرے کا رخ اپنی مرضی سے بدل سکتے ہیں.یہی حکومتوں کو بھی للکارتے ہیں اور بڑے بڑے آمر بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیک جاتے ہیں اس سے میڈیا یا صحافت کی طاقت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے. آج ہم پاکستان میں صحافت کے گزشتہ پانچ برس کا جائزہ لیں گے کہ اس دور میں میڈیا کو کس حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور میڈیا نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کر کے عوام کا اعتماد بھی کھو دیا اس کے آثرات ہم 2013 سے 2019 تک بخوبی دیکھ سکتے ہیں. اس وقت پاکستانی میڈیا پر گویا ایک لرزا طاری ہے.میڈیا کے ایک استاد کی حثیت سے اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں 9 جولائی 2007 کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ایک فیصلے نے پاکستانی معاشرے کا رخ ہی موڑ دیا اور اسی نے پاکستانی میڈیا کا بھی رخ تبدیل کردیا یہا ں ایک نیا پیراڈائم شفٹ تھا اسی سے پاکستانی میڈیا کو اپنی زبردست اور بے پناہ طاقت کا احساس بھی ہوا اور اس نے اپنی آزادی کا غلط استعمال بھی کیا ہونا جبکہ یہ چاہیے تھا کہ آزادی کا استعمال لیکن ذمہ داری کے ساتھ.. جنرل پرویز مشرف کے اس فیصلے کے اثرات نے پاکستانیوں کو ایک نئی سوچ, سمت اور ولولہ بھی عطا کیا اور یہ ادراک بخشا کہ یہی وہ طاقت ہے جس کا صحیح استعمال وقت کے بڑے سے بڑے جابر کو اڑا کر رکھ سکتا ہے.جنرل پرویز مشرف جس نے فرعون بن کر چیف جسٹس کو نکال باہر کیا تھا صحافت نے جب اپنی پوری طاقت سے معاشرے کو معاملات کی صحیح تصویر دکھائی اور حکومتی مشینری کا غلط استعمال دکھایا اور یہ دکھایا کہ کس طرح ایک پولیس والا چیف جسٹس آف پاکستان کو دھکیل رہا ہے تو عوام غم و غصے سے ببھر گئے اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ملک گیر تحریک چلی اور چیف جسٹس کو بحال کرنا پڑا میڈیا کی تاریخ میں یہ ایک اہم واقعہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے اور اور دنیا میں میڈیا کی تاریخ میں پاکستان میں 2007 کے ان واقعات کا ذکر ضرور کیا جائے گا.ہم ذرا غور کریں اگر الیکٹرونک میڈیا نے واقعات کا صحیح رخ معاشرے کے سامنے نہ رکھا ہوتا تو چند وکلا لاٹھی چارج میں زخمی بھی ہوتے تو اگلے روز کسی ایک آدھ اخبار میں خبر لگ جاتی لیکن کوئی تحریک نہ بن پاتی اگر چینلز نے ان واقعات کو براہ راست نہ دکھایا ہوتا کہ چیف جسٹس کے ساتھ اسلام آباد پولیس نے جو ناروا سلوک کیا تو جو کچھ ہوا کیا ایسا ہو پاتا؟ بس چند وکلا کو مار پڑتی وہ اپنے گھروں میں جا کر بیٹھ جاتے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا اور سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے اتنی بڑی تحریک نہ بن پاتی اصل میں اس وقت صحافت نے یا میڈیا نے معاشرے کی خدمت کی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا اور آمر کے سامنے سر نہ جھکایا.جیو اور جنگ گروپ سمیت متعدد اداروں کے اشتہارات بند ہوگئے,اربوں روپے کا نقصان ہوا لیکن معاشرے کی خدمت کو جاری رکھا گیا اور عوام بھی میڈیا کی مدد کے لیے کود پڑے تو صحافتی ارباب اختیار کو بھی اپنی طاقت کا احساس ہوا کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں اور میڈیا نے جو کچھ کر دکھایا اس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی. ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ تک یہ بحث چلتی رہی کہ صحافت مشن ہے یا کاروبار حاصلِ بحث یہ ٹھہرا کہ موجودہ دور میں کوئی اخبار اقتصادی طور پر خود کفیل ہوئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور ایک آزاد خود کفالت کے لیے مناسب اشتہارات کی ضرورت ہے تاہم صحافت دوسرے ہر کاروبار سے مختلف ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق سماج سے ہے اس کے اعلی و ارفع مقاصد کو پیش نظر رکھنا اور اس کی تکمیل کے لیے کوشش کرنا بے حد ضروری ہے لیکن افسوس پاکستان میں صحافتی ضابطہ اخلاق کی کوئی پروا نہیں کی جاتی رہی خاص طور پر گزشتہ پانچ سالوں میں میڈیا کو جو مسائل درپیش ہیں اس کی وجہ خود میڈیا ہے آج کا میڈیا خواہ الیکٹرونک ہے یا پرنٹ اپنا کردار صحیح طور پر ادا نہیں کر رہا میڈیا اپنی سوشل ریسپانسبیلٹی پوری نہیں کر پایابلکہ ایک دوسرے سے بڑھ جانے کے کوشش میں تمام حدود و قیود سے تجاوز کر گیا معاشرتی اقدار کا خیال نہیں رکھا جاتا رہا.جنرل پرویز مشرف کے دور میں میڈیا کو بہت آزادی دی گئی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تمام آمرانہ ادوار میں میڈیا کو دبایا جاتا رہا بلکہ بعض نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف کا دور اس حوالے سے بھی بہت نمایاں رہے گا کہ اس میں میڈیا کو بہت زیادہ آزادی دی گئی بہت زیادہ چینلز اسی دور میں سامنے آئے اور شتر بے مہار اور بے مادر پدر آزادی کے اثرات سامنے آئے اس سے آپ کا خاندانی نظام کمزور ہوا,بچوں میں بڑوں کا ادب اور بڑوں میں بچوں سے مخصوص انسیت ختم ہوتی جارہی ہے, روایتی شرم و حیا تو گویا ماضی کی کتابوں کا حصہ بن گئی ہے لہذا کسی کو معلوم نہیں کہ ادب کس چیز کا نام تھا بس منہ پھٹ ہونا شاید نئی تہذیب ہے اس کی وجہ ہمارے میڈیا کے سماج پر اثرات ہیں کہ میڈیا کے پاس کوئی واضح مقصد ہی نہیں ہے.ہمارے معاشرے میں پورا میڈیا چند مالکان اور مخصوص طبقہ فکر کے چند صحافیوں کے نظریات کے گرد رقص کر رہا ہے اور پوری قوم ان کے ہاتھوں یرغمال بنی محسوس ہوتی ہے اگر ہم صحافت کو معاشرے کا آئینہ کہتے ہیں تو یہ آئینہ صرف جرم, سیکس اور لچر پن کو ہی کیوں دکھا رہا ہے کیا ہمارا معاشرہ سماجی لحاظ سے اتنا پراگندہ ہو چکا ہے.کیا یہاں تہذیب و تمدن نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے.اگر جرم کو دکھایا جاتا ہے تو سزا کے بارے میں کیوں نہیں بتایا جاتا. نو پختہ ذہنوں میں جو ابھی جرم و سزا کی نوعیت کو نہیں سمجھتے ان کو ایک محرک مل جاتا ہے اور وہ بھی جرم کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھ لیا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جرم کی سزا نہیں مل سکتی اس صورت میں پورا معاشرہ ہے گویا مجرموں کا معاشرہ دکھائی دیتا ہے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور خوف جنم لیتا ہے, مجرموں کی تشہیر ہوتی ہے کہ وہ ہیرو دکھائی دیتے ہیں اور کچے اذہان ان منفی اثرات کو قبول کر لیتے ہیں.امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر اس خطے میں گریٹ گیم کھیل رہا ہے انتہا پسند مودی کا جیت جانا ایک بہت بڑے خطرے کا نشان ہے لیکن ہم نے تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ ہم اپنے تئیں محفوظ ہیں. قوم کو مشکل حالات کا سامنا ہے طاقتور دشمن ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں صورتحال واقعی مایوس کن ہے معیشت کی حالت خراب ہے مستقبل کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کیا ان حالات میں اس قوم کے صحافی حقیقت بیانی کے نام پر اس قوم کا حوصلہ پست کریں گے یا قوم کا حوصلہ بڑھانے اور مورال بلند رکھنے کے لئے اور اسے اپنی بقا کے لیے سخت جدوجہد پر آمادہ کریں گے.. ایک نظریاتی مملکت میں میڈیا کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے میڈیا ملک و ملت کے مفادات کا نگران اور محافظ ہونے کی حیثیت سے نظریاتی تقاضوں کا بھی پاسبان ہوتا ہے جب جیو نیوز نیا نیا آیا تو جناب محمود شام صاحب ہمارے گروپ ایڈیٹر تھے ہمیں ان کی طرف سے سے ایک سوال پوچھا گیا کہ نئے چینلز کے آنے کے بعد ہم کس طرح پرنٹ میڈیا کی افادیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں. اس حوالے سے اپنی تجاویز دیجیے…. مجھے یاد پڑتا ہے کہ روزنامہ جنگ میں مجھ سمیت تمام سینئر افراد نے اس حوالے سے اپنی تجاویز دیں. اس سوال سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ارباب اختیار تقریبا سترہ اٹھارہ سال پہلے سے یہ سوچ رہے تھے کہ پرنٹ میڈیا آہستہ آہستہ اپنی افادیت کم کر دے گا اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں پرنٹ میڈیا اپنی افادیت کم کر رہا ہے اس وجہ سے بے شمار ٹی وی چینلز کا آنا تو ہے ہی لیکن سوشل میڈیا نے گویا ہرطرف ایک طوفان برپا کر دیا ہے گزشتہ پانچ برس پاکستانی صحافت کے لیے کچھ اچھے نہیں گزرے اصل میں 2007 میں ارباب اختیار اس وقت چونک گئے جب الیکٹرونک میڈیا نے متحد ہو کر وہ کر دکھایا جو کسی طور پر ممکن نظر نہیں آتا تھا اور ایک آمر مطلق کو اپنے فیصلے کے نتیجے کے طور پر ملک سے بھاگنا پڑا.2014 اس حوالے سے بہت اہم سال ہے اس سال پاکستان کی تاریخ کا ایک طویل دھرنا ہوا یہیں ارباب اختیار نے اپنی پالیسی کو تبدیل کیا اور ہم دیکھتے ہیں 2014 میں ایک میڈیا وار ہوئی جس کا ذکر میں نے اپنی کتابوں میں بھی کیا ہے اور اپنے لیکچرز میں بھی کرتا ہوں کہ اس میڈیا وار نے پاکستان کے مستقبل کے میڈیا کی آزادی کی سمت کا تعین کر دیا اس کے بعد پاکستانی معاشرہ واضح طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا اور وہ گروہ آہستہ آہستہ مزید گروہوں میں تبدیل ہوگئے اور آج پاکستانی معاشرہ کسی ایک ڈائریکشن میں نظر نہیں آتا بلکہ ایک بکھرتا سماج ہے کیونکہ آپ کا میڈیا بکھر چکا ہے اسی کے اثرات معاشرے پر مزید رونما ہوتے چلے جارہے ہیں اس حوالے سے ایک تھیوری ہے جسے MEDIA HEGEMONY کہتے ہیں اس کے مطابق میڈیا کے مالکان کی رائے آخر کار عام لوگوں کی رائے بن جاتی ہے 2014 کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ پورا ملک دو واضح گروہ میں تقسیم ہو گیا اینٹی جیو اور پرو جیو. جو چینلز جو اس وقت کی حکومت کے خلاف تھے وہ ایک طرف تھے اور جو حمایت میں تھے وہ دوسری سمت تھے… اسی طرح پورے ملک کے عوام بھی اسی طرح تقسیم ہو چکے تھے. اس صورتحال میں ہم نے دیکھا کہ جو میاں محمد نواز شریف کے حمایتی افراد تھے وہ جیو اور اور ایسے تمام چینلز کو دیکھنا پسند کرتے تھے جو میاں محمد نواز شریف کی حمایت کر رہے تھے جبکہ دوسرے وہ تمام لوگ جو تحریک انصاف کو پسند کرتے تھے وہ ان چینلز کو دیکھنا پسند کرتے تھے جیسے اے آر وائی, بول اور دیگر شامل ہیں جو حکومت وقت کی مخالفت پر کمر بستہ تھے اور پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کرتے تھے اس سے پورا ملک دو مختلف صرف نظریاتی گروہوں میں تقسیم ہو گیا اور یہ تقسیم آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2007 میں میڈیا نے ایک ہو کر جو ایک کامیاب تحریک چلائی جس کے نتیجے میں آمر وقت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑی سات سال میں ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ میڈیا دوبارہ ایسا اتحاد نہ کرسکے اور کبھی بھی بھی اس طرح کی تحریک پیدا کیا جانا ممکن نہ رہے جیسا کہ 2007 میں ہوا کہ آمر مطلق کی پاپولر حکومت کو سرنڈر کرنا پڑا. 2013 میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت برسراقتدار آئی یہ وہ دور تھا جب پورے ملک میں اندھیروں کا راج تھا کراچی تاخیبر لوگ بجلی کو ترس رہے تھے, گیس موجود نہ تھی اور ملکی اکانومی بحران کا شکار تھی 2007 سے 2014 کا دور پاکستانی میڈیا کا طاقتور ترین دور تھااور 2014 سے 2019 کا دور گویا اس دور کے مابعد اثرات بھگت رہا ہے اور یہ سزا اب طوالت اختیار کر سکتی ہے. 2002 سے پاکستانی میڈیا گویا بلا شرکت غیرے حکومت کر رہا تھا اس دور میں پاکستانی میڈیا کو ایک ڈائریکشن کی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا کو ایک درست سمت نہ ملنے کی وجہ سے اس نے اپنی بے پناہ طاقت کا وہ غلط استعمال کیا جس کے معاشرے پر بہت زیادہ منفی اثرات نمودار ہوئے ہم اپنے مشاہیر کا مذاق اڑانے لگے اور نظریہ پاکستان کے خلاف بھی بہت زیادہ باتیں کی جانے لگیں یہ وہ دور تھا جس میں میڈیا کو اپنی سمت کا تعین کرنے کی ضرورت تھی لیکن اس بے ہنگم بے مہار اور مادرپدر آزادی نے پاکستانی سماج میں جس تعصب اور نفرت کی بنیاد رکھی اس کو آج ہم سب محسوس کر رہے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل ایک کنفیوز نسل ہے اپنے مذہب کے بارے میں بھی, اپنے اسلاف اور اپنے مشاہیر کے بارے میں بھی نئی نسل کسی ایک سمت میں نہیں ہے.مقتدر قوتوں نے 2014 میں پاکستانی میڈیا کی زبردست اور بے پناہ طاقت کا بت پاش پاش کر دیا اس دور سے موجودہ دور تک پاکستانی میڈیا تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے اس کی تقسیم کی وجہ سے لوگ میڈیا کی بات سننے کو تیار نہیں لوگ اپنا من پسند میڈیا دیکھنا پسند کرتے ہیں ہم یہ دعوی ان اعداد و شمار کی بنیاد پر کر سکتے ہیں اس حوالے سے مختلف یونیورسٹیوں میں تحقیق بھی کروائی گئی کہ جو لوگ میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا ساتھ دیتے تھے وہ جیو اور اس کے ہمنوا چینلز کو دیکھنا پسند کرتے تھے اور جو حکومت کے مخالف تھے وہ بول,اے آر وائی اور اور اس قسم کے چیلنز کو دیکھنا پسند کرتےتھے اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا کا کام آئینہ دکھانا ہوتا ہے وہ صحیح معنوں میں اپنا کردار ادا نہیں کر پایا اور لوگ میڈیا کی تقسیم کے ساتھ ساتھ اسی طرح تقسیم ہو گئے کہ ان کے نظریات بھی اسی طرح تقسیم ہو گئے جیسے میڈیا خود تقسیم تھا یہاں میڈیا کی گیٹ کیپنگ اور ایجنڈا سیٹنگ تکنیک کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور لوگ بھی میڈیا پر اعتماد کرنا چھوڑ گئے جو ایک خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کر رہی ہے چونکہ پاکستان کا سماج ایک بکھرتا سماج بنتا جا رہا ہے. 2013 سے سے اب تک کافی نئے چینل بھی آئے اور اخبارات بھی نکالے گیے لیکن یہ دور کارکن صحافیوں کے لئے کوئی اچھا دور ثابت نہیں ہوا خاص طور 2018 کے بعد حالات دگرگوں ہوتے چلے جا رہے ہیں اس دور میں اشتہارات کی بندش کے حوالے سے مختلف میڈیا ہاؤسز کو سختی کا سامنا کرنا پڑا جس سے کارکن صحافیوں کو بھی سخت مشکلات کا سامنا پڑا بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے ایک دو برس کے دوران کارکن صحافیوں کے لئے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ہے اس دور میں متعدد اخبارات کو بند کرنا پڑا اور اور اخباری مالکان نے اس حوالے سے دعویٰ کیاکہ حکومت کی طرف سے ان کے اشتہارات کی پیمنٹ کو بروقت نہیں ادا کیا گیا لہذا وہ بھی اپنے کارکنوں کو بروقت تنخواہ نہیں دے سکتے بڑے بڑے اداروں جیسے ڈان نے اپنے کارکنوں کی 40 فیصد تنخواہ پر کٹ لگایا.نوائے وقت جیسے بڑے گروپ کو اپنا چینل وقت آف ائیر کرنا پڑا. جنگ جیسے عظیم روایات کے حامل ادارے کو بھی اپنے سیکڑوں کارکنوں کو فارغ کرنا پڑا.کئی اخبارات جیسے خبریں تو اپنے کارکنوں کو کئی کئی ماہ تنخوائیں نہیں دیتے, روزنامہ پاکستان نے بھی اپنے کارکنوں کی تنخواہوں میں کمی کی ہے. صحافیوں کی کئی تنظیموں نے دنیا, سیون نیوز اور دیگر اداروں کے کارکنوں کو نکالنے کے خلاف ان اداروں کے باہر دھرنے بھی دیے. ایک ماہ پہلے روزنامہ جنگ لاہور کی عمارت کے سامنے لاہور پریس کلب, پی یو جے اور پی ایف یو جے نے دھرنا دیا. بلاشبہ موجودہ دور کارکن صحافیوں کے لیے بدترین ہے کیونکہ ایک سب ایڈیٹر یا رپورٹر سبنگ یا رپورٹنگ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتا. نو عمر صحافی تو اپنی فیلڈ کو تبدیل کر سکتا ہے لیکن وہ شخص جس نے صحافت کو پندرہ یا بیس برس دے دیے ہیں وہ اب کیا کرے اور کہاں جائے لہذا وہ اس وقت ایک صدمے سے دوچار ہے.
دو روز پہلے کے واقعہ نے ارباب صحافت تو گویا چونکا دیا ہے کہ ایک وفاقی وزیر نے نے ایک سینئر صحافی کو شادی کی تقریب میں تھپڑ دے مارا گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر موصوف سے سوال کیا گیا کہ اس پر کوئی ندامت ہے یا نہیں تو وزیر نے جواب دیا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں یہ کوئی اہم واقعہ نہیں ہے. اس بات کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو ارباب صحافت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کہاں صحافت اتنی طاقتور تھی کہ لوگ صحافیوں کو گویا ایک دیوتا کی طرح پوجتے رہے اور ان کی باتوں پر یقین کر سیاسی رہنماؤں کے پیچھے چلتے رہے اور اب یہ صورت حال ہے کہ لوگ ان اینکروں کو شعبدے بازوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اس میں ہم نے صحافیوں کا اپنا قصور زیادہ ہے کہ ہم نے اپنی کریڈیبلٹی کھو دی ہے لوگ اب صحافی اینکروں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں اس کی وجہ لفافہ جرنلزم بھی ہے.پاکستان میں مختلف حکومتیں صحافت کو اشتہارات کے ذریعے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے.جنرل محمد ایوب خان کے دور میں یہ سلسلہ اپنے عروج پر تھا اس دور میں پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس جس کو کالا قانون بھی کہا جاتا ہے کے ذریعے مختلف اخبارات کو بند بھی کیا گیا اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے تحت روزنامہ امروز, پاکستان ٹائمز اور مشرق سنیت متعدد اخبارات کو قومیا لیا گیا.بدقسمتی سے یہ سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی طور پر جاری ہے. گزشتہ پانچ برسوں میں پوکستانی میڈیا جن حالات سے دوچار رہا ہے اب اس کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے کسی پالیسی کا تعین کرنا پڑے گا جن وفا قی وزیر کا میں نے ذکر کیا ہے موصوف جب وزیر اطلاعات ونشریات تھے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ ملک کی مختلف جامعات میں جو ابلاغ عامہ کے شعبے ہیں ان کو بھی اب نظر ثانی کرنا پڑے گی کہ اتنے طالب علموں کو آگے نوکریاں کیسے ملیں گی.اسی بیان سے موجودہ حکومت کی میڈیا کے حوالے سے ایجنڈا سیٹنگ پالیسی کا اظہار ہع رہا تھا. میں نے انہی دنوں اپنے احباب کو خبردار کر دیا تھا کہ میڈیا پر کڑا وقت آیا چاہتا ہے. اس حکومت نے اقتدار میں آتے ہی صحافت کے حوالے سے یا میڈیا کے حوالے سے اپنی پالیسی کو بڑا واضح کر دیا تھا اب وہ تمام چینلز اور وہ تمام ارباب صحافت جو گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی حکومت لانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے اب گویا دہائیاں دیتے نظر آرہے ہیں ایک مشہور اینکر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مجھ پر لعنت ہو.اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو جو اور مسائل درپیش ہیں وہ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز سے کارکن صحافیوں کی برطرفیاں اور تنخواہوں کا بروقت ادا نہ ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے میں نے خود لاہور پریس کلب میں کئی سینئر صحافیوں کو پانچ پانچ سو سے ہزار روپے تک ادھار مانگتے دیکھا ہے.کیونکہ نوائے وقت جیسے بڑے اداروں کو بھی چند ماہ سے تنخواہوں کو روکنا پڑا جس کی وجہ سے ایک بہت ہی محترم سینئر صحافی نے جب احتجاج کیا تو ان کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی گئی اور انہیں ایک رات جیل میں گزارنا پڑی اس کے علاوہ ملک کے بہت بڑے میڈیا گروپ سے تعلق رکھنے والے دو انتہائی سینئر میڈیا پرسنز دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ان کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی برطرفی کا صدمہ برداشت نہ کر سکے کہ ان کی خدمات کی بالکل بھی قدر نہ کی گئی. اس کے علاوہ ایک اور اہم مسئلہ جو انہیں چند سالوں میں سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک سینٹرل نیوز روم کا تصور بین الاقوامی طور پر بھی ابھر رہا ہے جیسے کئی برس پہلے جب جب “ان پیج” آیا تھا تو بڑے سینئر کاتبوں کو بھی برطرف کرنا پڑا تھا کیونکہ ان کی ضرورت نہ رہی تھی ہمیں اپنے آپ کو نئے زمانے کی ضروریات کے مطابق جدت اختیار کرنا ہوتی ہےکیونکہ زمانہ کے ساتھ چلنا پڑتا ہے زمانے کو ہمارے ساتھ چلنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہوتی. اس دور میں جنہوں نے ان پیج پر کام کرنا سیکھ لیا وہ تو آگے بڑھ گئے اور جو نہ سیکھ سکے وہ بس قسمت کو کوستے رہ گیے. اب وہ شعبہ خواب و خیال بن چکا ہے اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں جیسے معاشرے تبدیل ہوتے ہیں اس طرح سائنسی ایجادات کے ساتھ ساتھ اداروں میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں انتظامی معاملات میں بھی تبدیلیاں لانا پڑتی ہیں اب کئی ایسے کام جو زیادہ افرادی قوت کے بغیر بھی سرانجام دیئے جاسکتے ہیں مثلا اب ہر اسٹیشن پر بہت زیادہ سب ایڈیٹرز کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے کسی بھی ایک جگہ پر سینٹرل نیوز روم بنا کر مختلف سٹیشنز پر صرف رپورٹرز کی مدد سے کام چلایا جا سکتا ہے وہ تمام خبریں اگر سینٹرل نیوز روم میں بھیج دیں اور صفحہ 2/4 جو کسی شہر کی خبروں سےمتعلق ہوتے ہیں اس کے لئے لئے ایک اضافی سب ایڈیٹر موجود ہو تو بھی کام چل سکتا ہے اور ہر سٹیشن پر بہت زیادہ کارکن صحافیوں کی ضرورت نہیں رہتی یہ بات سرمایہ دار اخباری مالکان کو سمجھ آ چکی ہے اسی طرح ویب چینلز کا رجحان بڑھتا جارہا ہے جس وجہ سے ٹی وی چینلز کے اشتہارات میں بھی کمی آرہی ہے. تازہ ترین سروے بتا رہے ہیں کہ نوجوان نسل خاص طور پر جس کا تعلق 15 سے 25 سال کے درمیان ہے وہ اخبار سے کوسوں دور ہے اور ٹی وی چینلز کو بھی دیکھنا پسند نہیں کرتی وہ اگر اخبار پڑھنا بھی چاہے تو اپنے موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں اور خبریں سننے کے لیے بھی بھی انٹرنیٹ کا استعمال مناسب سمجھتےہیں. پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی طرف نئی نسل کا رجحان کم ہونا بھی میڈیا کے پالیسی سازوں کے لیے ایک الارم ہے اسی وجہ سے اشتہارات میں بھی کافی کمی آئی ہے اگر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو زندہ رہنا ہے تو اسے نئے زمانے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ہو گا جیسا کہ دانائے راز علامہ محمد اقبال فرما گیے ہیں
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
میڈیا کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہو گی اور خاص طور پر گزشتہ پانچ برسوں کی صورتحال کا جائیزہ اب اس فہم کا متقاضی ہے کہ اب ایسی خبروں سے اجتناب کرنا ہوگا جس سے سے گزشتہ پانچ سالوں میں عوام کا اعتماد میڈیا پر ختم ہو کر رہ گیا ہے انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کی ضرورت ناگزیر ہے اور وہ سچائی پر مبنی خبریں اور تبصرے عوام کو دکھا سکتے ہیں تب کہیں جا کر اعتماد بحال ہو سکے گا اور عوام اس طرف واپس لوٹ سکتے ہیں لیکن نئی نسل تیزی کی ساتھ انٹرنیٹ میں کھوتی چلی جارہی ہے اور مستقبل میں ایسا کوئی امکان نہیں کہ نئی نسل واپس پرنٹ میڈیا یا الیکٹرونک میڈیا کی طرف مائل ہو سکے.الیکٹرونک میڈیا کو بھی ویب چینلز کی طرف آنا پڑے گا اور سوشل میڈیا پر اپنا دائرہ اثر بڑھانا پڑے گا رواں سال کے آغاز میں ہی بھارت نے پاکستان پر ایئر اسٹرائک کر کے خطے کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا. اس دوران بھارتی میڈیا نے وہ کردار ادا کیا جسے کسی طور پر بھی ذمہ دارانہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن پاکستانی میڈیا کا کردار بہت حد تک ذمہ دارانہ تھا یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ میڈیا کے ارباب اختیار بہت زیادہ مسائل کے ساتھ ساتھ سیکھنے کی طرف بھی مائل ہیں.اب میڈیا کو اپنے اندرونی معاملات کے ساتھ ساتھ بیرونی مسائل کا بھی سامنا ہے اور اگر میڈیا اپنی کریڈیبلٹی بحال نہ کر پایا تو اس کا سروائو کرنا بہت مشکل ہوگا آنے والے چند سال پرنٹ میڈیا کے لیے بہت زیادہ سنگین صورتحال اختیار کر سکتے ہیں مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ ایسے تمام اخبارات جو بلیک میلنگ کے سہارے چل رہے ہیں یا زرد صحافت کا سہارا لیتے ہیں وہ صفحہ ہستی سے نابود ہو جائیں گے اور اور ایسے تمام چینلز جو سنسنی خیزی پر مبنی خبریں پیش کرتے رہے ہیں جس کا صداقت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے مستقبل صرف ان اداروں اور چینلز کا ہے اور صرف وہی چینلز اور وہی اخبارات زندہ رہیں گے جو اپنی ساکھ عوام میں بحال کر پائیں گے اور جو نوجوان نسل کی توجہ مبذول کر پائیں گے اور سوشل میڈیا پر بھی اسی طرح موثر ہوں گے جس طرح روایتی طور پر رہے ہیں.میڈیا کے ارباب اختیار اس بات کو جان چکے ہیں اور مقتدر حلقے بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ میڈیا ایک بہت طاقتور طوفان ہے جس کا کسی سمت میں کنٹرول کیے جانا بہت ضروری ہے.
2007 سے 2014 کا زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے جس میں میڈیا کو شتر بے مہار آزادی حاصل رہی اور اسی نے ارباب اختیار کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور اس کا تدارک 2014 کی میڈیا وار کے بعد کیا گیا جس سے پاکستانی معاشرہ بھی اسی طرح تقسیم ہو گیا جس طرح میڈیا تقسیم ہوگیا اب بہت مشکل نظر آتا ہے کہ لوگ اس طرح منقسم میڈیا پر اعتماد کر سکیں جس طرح انہوں نے 2007 میں کیا تھا.پاکستانی میڈیا کے لیے یہ ایک امتحان کا وقت ہے اور یہ صرف ایک امتحان نہیں بلکہ ایک کڑی آزمائش بھی ہے کہ وہ کس طرح دوبارہ پاکستانی سماج میں اپنی وقعت اور اہمیت کو برقرار رکھ سکے گا کیونکہ 2014 کے بعد پاکستانی سماج بھی میڈیا کی طرح بکھر چکا ہے اور مزید بکھر رہا ہے ہم مختلف چھوٹے چھوٹے تعصبات میں اپنے آپ کو گھیر چکے ہیں جو انتہائی خطرے کا اور تشویش کا باعث ہے کاش ہم سمجھ سکیں کہ میڈیا کی مضبوطی در حقیقت کسی بھی معاشرے کی مضبوطی ہوتی ہے میڈیا کی کمزوری معاشرے کی اقدار کو بھی کمزور کر دیتی ہے. پاکستان اس وقت اپنے بدترین دور سے گزر رہا ہے نیو ورلڈ آرڈر اپنا کام کر رہا ہے خطے میں پاکستان کے گرد دائرہ کھنچا جا چکا ہے. معیشت کے حوالے سے شکنجہ سخت کیا جا رہا ہے اگر ہم یہ بات سمجھ جائیں تو ہمارا مستقبل روشن ہے ورنہ گزشتہ پانچ سالوں میں جو میڈیا نے اپنے بدترین بحرانوں کو دیکھا ہے یہ مزید بڑھے گا میڈیا کو نہ صرف اپنے آپ کو بچانا ہے بلکہ پاکستان کو بھی بچانا ہے.سماج کو جوڑنا ہے نہ کہ مزید بکھیرنا..آج جس طرح پاکستانی سماج کو کوئی بھی درست سمت بتانے کے لئے نہیں ہے اور پاکستانی شہری یہ سوچتا ہے کہ وہ کس پر اعتماد کرے کس پر نہ کرے, کس کی بات سنے اور کس کی نہ سنے, کون سچ کہہ رہا ہے کون جھوٹ بول رہا ہے کون لفافہ لیتا ہے کون نہیں لیتا.. اس میں قصور ہم سب کا ہے اور اس میں میڈیا بھی اتنا قصور وار ہے.کاش میڈیا نے اپنی آزادی کا انتہائی ناجائز فائدہ نہ اٹھایا ہوتا وہ اس وقت ہی سمجھ جاتا اور بااثر حلقوں کے ہاتھوں نہ کھیلتا اور اپنی اہمیت کو ختم نہ کرتا. لفافہ جرنلزم کا تصور نیا نہیں ہے یہ بہت پرانا ہے لیکن اب چونکہ میڈیا بہت طاقتور ہو گیا تھا اس لیے لوگ اس پر یقین کرتے تھے .لوگ اس سے اپنی رائے بناتے تھے اور صحافی دراصل رائے عامہ کے رہنما ہوتے ہیں جب رہنماؤں پر یہ الزام لگے کہ وہ پیسے لے کر اپنی رائے تبدیل کرتے ہیں اور لوگوں کی رائے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور دنیا کا سب سے مشکل کام اعتماد حاصل کرنا ہےاور یہ ایک مرتبہ ختم ہو جائے تو دنیا کا سب سے مشکل کام اعتماد بحال کرنا ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی میڈیا اپنا اعتماد کھو چکا ہے اب کب اور کس طرح یہ اعتماد واپس آتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس سے پاکستانی سماج بری طرح بکھر چکا ہے.جسٹس شاہ دین ہمایوں ایک صدی پہلے کیا خوبصورت شعر کہہ گیے ہیں
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
( جناب محمود شام کی خواہش پر ماہنامہ اطراف کراچی کے پانچ سال مکمل ہونے پر اس کے جولائی 2019 کے خصوصی نمبر کے لیے تحریر کیا گیا اور شائع ہوا)