شہزادی درشہوار, ارطغرل غازی کی انیسویں نسل,
خلافت عثمانیہ کے آخری سلطان عبد المجید کی صاحبزادی,
صاحب زادہ محمد زابر سعید بدر
چھ سو برس اسلام مخالف قوتوں پر ہیبت طاری کرنے والی عظیم سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبد المجید کے یہاں 26 نومبر 1914 کو ایک ننھی شہزادی نے جنم دیا جس کو دنیا شہزادی خدیجہ خیریہ عائشہ در شہوار کے نام سے جانتی ہے.
شاہان عثمانیہ کا آخری دور چل رہا تھا اور تین بر اعظموں اور سمندروں پر حکمران رہنے والی سلطنت کا آخری سلطان اپنے خاندان سمیت فرانس جلاوطن ہو رہا تھا. ایک سپر پاور کا اختتام ہو رہا تھا (1924)

ادھر ہندوستان میں عظیم شاہان مغلیہ کی عظیم سلطنت کا سورج گو غروب ہو چکا تھا لیکن ان کی قائم کردہ ایک ریاست حیدر آباد دکن موجود تھی. نظام کا خطاب مغل شہنشاہ کی طرف سے مرحمت فرمایا گیا تھا. اور میر عثمان علی خان اسی سلسلے کےساتویں نواب تھے اور اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص بھی تھے… قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جنہوں نے نظام الملک آصف جاہ کو یہ حکمرانی عطا کی ان کے شہزادے اور شہزادیاں عبرت کا نشان بن گئے کوئی قلی بنا اور کوئی شہزادی سردی سے ٹھٹھر کر مر گئی اور انہی کی ریاستوں کے نواب آج بھی عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں…
اٹھارہ برس کی عمر میں شہزادی صاحبہ کی شادی حیدرآباد دکن کے نواب میر عثمان علی خان کے بڑے صاحبزادے شہزادہ اعظم جاہ سے ہوئی شہزادہ اعظم کی عمر اس وقت 25 برس تھی.مولانا محمد علی جوہر کے بھائی مولانا شوکت علی نے ان کا نکاح 12 نومبر 1932 کو پیرس میں پڑھوایا.
شہزادہ اعظم جاہ کا انتقال 1970 میں ہوا.
شہزادی صاحبہ کی ایک کزن نیلوفر کی شادی نظام حیدر آباد کے دوسرے صاحبزادے شہزادہ معظم جاہ سے ہوئی.
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رشتے سے پہلے ایران کے بادشاہ نے اپنے بیٹے رضا شاہ پہلوی کے لیے شہزادی در شہوار کا رشتہ مانگا اور مصر کے شاہ فواد نے بھی اپنے بیٹے فاروق کے لئے اس رشتے کی درخواست کی تھی لیکن سلطان عبدالمجید نے انکار کر دیا تھا.

لیکن یہ سعادت ہندوستان کے نظام حیدر آباد کے حصے میں آئی دلچسپ بات یہ ہے کہ نظام حیدر آباد پارٹیوں میں بڑی محبت سے اس بات کا ذکر کرتے کہ شہزادی در شہوار ان کے صاحب زادے سے طویل القامت ہیں…
سلطنت عثمانیہ کے آخری سلطان عوام میں اپنی ماڈریٹ اپروچ کی وجہ سے خاصے مقبول تھے اور خواتین کی تعلیم و تربیت کے بہت بڑے داعی تھے چنانچہ انہوں نے اپنی بیگمات اور شہزادیوں کو اعلی تعلیم دلوائی …شہزادی در شہوار کو ترکی , فرانسیسی، انگریزی اور اردو زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا….
شہزادی صاحبہ نے حیدر آباد دکن آ کر خواتین کی اعلی تعلیم کے حوالے سے بہت کام کیا. وہ کہا کرتی تھیں کہ خواتین کو اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا چاہیے اور کسی کا محتاج نہیں ہونا چاہیے…
حیدرآباد میں شہزادی صاحبہ نے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک کالج قائم کیا جس کا نام باغ جہاں آرا تھا.
1933ء میں ان کے بطن سے مکرم جاہ اور 1936ء میں مفحم جاہ پیدا ہوئے۔ دونوں نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور ترک خواتین سے ہی شادیاں کیں۔
روایتی طور پر پردہ کرنے کی بجائے وہ خاص تقاریب میں شریک ہوا کرتی تھیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف سرگرمیاں انجام دیتی تھیں۔ انہوں نے حیدرآباد شہر میں ایک شفا خانہ بھی قائم کروایا جو آج بھی انہی کے نام سے موسوم ہے۔
وہ آخری بار نظامی عجائب گھر کے 25 سال مکمل ہونے پر منعقدہ تقریب کی صدارت کے موقع پر منظر عام پر آئیں۔
شہزادی در شہوار نے حیدرآباد دکن میں ایک متحرک زندگی گزاری انہوں نے 1940 میں حیدرآباد کے پہلے ایئرپورٹ کا افتتاح کیا.مزید براں عثمانیہ ہسپتال قائم کیا اور بچوں کے لئے “در شہوار چلڈرن ہسپتال” کی بنیاد رکھی.. علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 1939 میں مشہور زمانہ اجمل خان طبیہ کالج کا افتتاح کیا.

شہزادی در شہوار ترک حکومت کے رویے کی وجہ سے سخت آزردہ تھیں انہوں نے شاہی خون ہونے کے باوجود استنبول میں دفن ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ 1944 میں ان کے والد آخری خلیفہ اسلام سلطان عبدالمجید دوم کو استنبول میں دفن ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی.

7 فروری، 2006ء کو وہ لندن میں 92 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
ایک برٹش آفیسر فلپ میسن ان الفاظ میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہے.
“کوئی بھی شہزادی کو نظرانداز نہیں کرسکتا تھا ان کا ادب کرنا ناگزیر تھا. وہ یقینی طور پر “رائل” تھیں ، اور اگر قدرت ساتھ دیتی تو وہ شاید دنیا کی عظیم ملکاؤں میں سے ایک ہوتیں.

تحقیق:
صاحب زادہ محمد زابر سعید بدر
بشکریہ: منٹو پلس, وکی پیڈیا تصاویر