117

با زابر دید… ڈاکٹر اعجاز الحق اعجاز

”با زابر دید“

ڈاکٹر اعجازالحق اعجاز

جسے میں نے دیکھا
وہ زابر تھا
کسی تنگ سی راہداری سے جاتے ہوئے
جس میں صدیوں پرانی گپھاؤں سے آتی ہوئی
روشنی میں دکھائی نہ دیتا تھا کچھ
میں نے دیکھا
جسے میں نے دیکھا
وہ زابر تھا

بہت زرد، مدھم سی تصویر کے
بھولتے یاد آتے ہوئے، بنتے مٹتے ہوئے
خال و خد کے کٹاؤ میں
ہونٹوں کے گھاؤ کے اندر پڑے آبلے میں
ہنسی میں
ہنسی میں زیادہ
کہ آنکھوں میں،
آنکھوں کے کونوں پہ
چِپکے ہوئے لفظ میں
دور سے
اتنی دوری
کہ جس میں سجھائی نہ دیتا تھا کچھ
میں نے دیکھا
جسے میں نے دیکھا
وہ کوئی اور نہ تھا
فقط زابر تھا

صاحب زادہ محمد زابر سعید بدر

یہ دیکھا
کہ میں دیکھنا چاہتی ہوں جسے
اس کے ملبوس کی سلوٹوں میں
تہوں کی تہوں میں
زمانے کی گردش کا نقشہ بنا ہے
زمانہ جو صدیوں میں اترا
تو میں اس کے پیچھے بہت دیر بھاگی
مگر میں نے پھر
ایک لحظہ ٹھہر کے
جو سانس اپنی ہموار کی
میں نے دیکھا
اسے دھند کی اوٹ میں
جیسے سایہ سا کوئی، سرِ شام
چھپتا ہوا، اپنے منظر کے پہلو میں
ناظر کی خواہش میں گھلتا ہوا
میں نے دیکھا
جسےمیں نے دیکھا
وہ زابر ہی تو تھا

(یاسمین حمید کی نظم سے متاثر ہو کر محترم دوست صاحب زادہ محمد زابر سعید بدر کی نذر)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

با زابر دید… ڈاکٹر اعجاز الحق اعجاز” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں