218

…..آہ ! جاوید محمود شیخ….. تیسری برسی پر صاحب زادہ زابر سعید کی خصوصی تحریر

محترم جاوید محمود شیخ کو ہم سے جدا ہوئے تین برس بیت گئے لیکن وقت اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ ہمیں احساس نہیں ہو پاتا اور ایک ایسا دن آتا ہے جب ہم خود بھی اس فانی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں آج بھی 24 جولائی ہے .ٹھیک تین برس پہلے جناب جاوید محمود شیخ صاحب نے اس فانی دنیا کو خیر آباد کہا اور اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے. ایسا ہی موسم تھا ساون ایسے ہی برس رہا تھا. ایسے ہی اداسی اور یاسیت تھی اور آج بھی ہے.عجیب طلسم ہے کہ لوگ نہیں ہوتے عمارتیں ہوتی ہیں. چیزیں رہ جاتی ہیں مگر جذبات سے بھرے دل اور محبت کا جاویداں احساس مٹی ہو جاتے ہیں… اسی لئے تو غالب کہتا ہے کہ
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں.
لیکن یہ پوچھا ہی تو نہیں جا سکتا…. دانائے راز علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں…

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی

جانے والے جسمانی طور پر چلے جاتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ ہماری یادوں میں زندہ رہتے ہیں.. ہنستے ہیں.. باتیں کرتے ہیں…. مسکرا کر بھی دیکھتے ہیں….. ان کے جب دعا کریں تو کبھی کبھی آس پاس بھی محسوس ہوتے ہیں…. یوں لگتا ہے کہ ایک موہوم سی آہٹ شائد انہی کی تھی…. گویا ہمارے کہیں آس پاس ہیں ہمیں دعا کرتا دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں…بات کرنا چاہ رہے ہیں…. ہمیں محسوس کر رہے ہیں…. ہم ان کو محسوس کرتے ہیں اس لئے شائد علامہ فرماتے ہیں
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

(نوٹ: یہ خصوصی رپورٹ جیو نیوز پر جناب جاوید محمود شیخ صاحب کے چہلم کے موقع پر شائع ہوئی)

آہ جاوید محمود شیخ

صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر

ساون اور بھادوں ان دونوں مہینوں کو ویسے بھی اداسی سے کچھ خاص نسبت ہے.ہمارے خطے میں ان مہینوں سے مراد برستے مہینے ہی لی جاتی ہے.ساون کی بارشوں کے.ذکر سے ہمارا سارا ادب بھرا پڑا ہے.کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ساون بھادوں نہ ہوتے تو اتنی نایاب شاعری کیسے تخلیق ہوتی.یہ موسم ہی اداس کر دینے والا ہوتا ہے جس میں انسان اپنے ماضی میں کھو جاتا ہے اور ایسا شاعروں,ادیبوں اور بہت حساس طبیعت والے لوگوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے.انسان کے موڈ کا اس کے اندر کے موسم سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور کبھی اندورنی اور بیرونی موسم ایک ہو جائیں تو ان کیفیات کا ابلاغ الفاظ میں ممکن نہیں ہوتا. لاہور میں دو تین دن سے بھادوں اپنے جوبن پر ہے . بارشوں نے موسم میں خنکی پیدا کر دی ہے.گیلی دیواریں ہوں,چاروں طرف نمی پھیلی ہو اور مٹی کی ایک مانوس سی خوشبو میں پنکھے کی ہوا بہت بھلی معلوم ہوتی ہے.ائیر کنڈیشنر یوں محسوس ہوتا ہے گویا اسے چلانے سے یہ سارا طلسم ٹوٹ جائے گا جس میں یادیں ہیں,محبت ہے اور سکون کا ایک خاموش احساس.

اس سے ایک دن پہلے کراچی کے دوستوں نے بتایا کہ طوفانی بارش نے شہر قائد کو نہلا دیا ہے.بہت محترم اور بزرگ صحافی جناب ارشاد احمد حقانی سے جنگ لاہور میں کافی ملاقاتیں ہوا کرتیں.حقانی مرحوم کا تعلق حضرت بابا بلہے شاہ صاحب کی نگری قصور سے تھا جو لاہور سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے.شیخ محمد جہانگیر قصور کے بہت نامی ماہر تعلیم ہو گزرے ہیں.باتوں باتوں میں ان کا ذکر ہوا تو ارشاد احمد حقانی مرحوم نے بہت احترام سے شیخ صاحب ذکر کرتے فرمایا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں ان سے زیادہ پرہیز گار انسان نہیں دیکھا.یہ ایک بہت بڑا کامپلیمنٹ تھا ایک ایسے انسان کی طرف سے جو خود ایک بہت بڑا نام تھا اور زندگی کی ستر بہاریں دیکھ چکا تھا لاکھوں انسانوں سے مل چکا تھا.حقانی صاحب نے مزید بتایا کہ انہوں نے جناب شیخ محمد جہانگیر پر کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا’قصور کا سر سید’ یہ کالم جنگ میں شائع ہوا.قصور میں تعلیم خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے شیخ صاحب کا کردار ناقابل فراموش ہے. جناب شیخ محمد جہانگیر کے چار صاحبزادے ہیں.جناب جاوید محمود,جناب عرفان مسعود,جناب باسط جہانگیر اور جناب شاہد رحیم.جناب جاوید محمود شیخ ان کےسب سے بڑے صاحبزادے تھے.وضع داری,خوش لباس اور زندہ دل.

قصور کے سر سید: جناب شیخ محمد جہانگیر

ایک ماہ قبل ان کا انتقال ہوا ساون کی ہی ایک اداس تاریخ تھی.یوں محسوس ہوتا ہے کہ وضع داری اور روائت پسندی کا انتقال ہو گیا ہے اور کل ان شاندار انسان جن کو قصور کا سر سید کہا.جتا تھا کے شاندار اور وضعدار صاحبزادے کی رسم چہلم ہے جنھوں نے صرف اپنے والد کی محبت میں بلہے شاہ کی نگری کو نہ چھوڑا.چالیس برس تک مسلسل لاہور سے قصور روزانہ آتے لیکن اپنی روائت پسند طبیعت اور وضع داری کو ترک نہ کیا.دیال سنگھ کالج کے شعبہ انگریزی کے سربراہ رہے.غالب اور میر کے سیکڑوں اشعار ازبر تھے.انگریزی,اردو اور فارسی ادب کا وسیع مطالعہ ان میں ایک متانت لایا اور ایک بہت بڑے ماہر تعلیم اور پرہیز گار انسان کا بیٹا ہونا ان کا فخر تھا.یہ تمام باتیں مل کر ان کی شخصیت کو بے حد سادہ اور خلوص کا ایک مرقع بنا دیتی تھیں.وہ ہر شام کو فاطمہ کو فون کرتے اور ڈھیروں باتیں کرتے.وفات سے ایک شام پہلے بھی ان کا فون آیا اور انہوں نے بہت کمزور آواز میں فاطمہ سے بات کی.جس سے فاطمہ پریشان ہو گئی.
24 جولائی کی صبح یہ خوبصورت,وضع دار اور نیک سیرت انسان ہمیشہ کے لیے اپنے رب کے حضور پیش ہو گیا.پیارے آقا کا فرمان ہے کہ آدمی کے تین والد ہوتے ہیں ایک وہ جو آپ کو دنیا میں لانے کا سبب بنے,دوسرے جنہوں نے اپنی بیٹی آپ کے نکاح میں دی اور تیسرے والد آپ کے استاد جنہوں نے آپ کو تعلیم دی.جناب جاوید محمود شیخ میرے بچوں احمد اور فاطمہ کے نانا تھے.میری گڑیا فاطمہ اور احمد کے لیے اس پوری کائینات میں وہ واحد آنکھیں جن میں ان کو دیکھتے ہی محبت کی چمک آ جایا کرتی تھی اور وہ دلفریب مسکراہٹ جن میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن محسوس ہوتا تھا اب ہم کبھی نہ دیکھ سکیں گے.مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کا یہ شعر جو وہ اکثر سناتے تھے.

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج‌ہاۓ گراں مایہ کیا کیے

جناب جاوید محمود شیخ اپنے نواسے اور نواسی(احمد اور فاطمہ) کے ہمراہ

(آج جناب جاوید محمود صاحب کی تیسری برسی ہے…. دعائے مغفرت کیجیے…. جزاک اللہ)

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں, حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)

صاحب زادہ محمد زابر سعید بدر

مقدور ہو تو…… صاحب زادہ زابر سعید
#JAVAID_MAHMOOD_SHEIKH

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں