206

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا… فضہ محمود خان

قومی ترانے کے خالق جناب حفیظ جالندھری کہتے ہیں
اب مجھے مانیں نہ مانیں اے حفیظؔ
مانتے ہیں سب مرے استاد کو
میری پوری فیملی میں دور دور تک کسی کو بھی صحافت سے کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ مجھے ایسا تاثر ملا تھا کہ صحافی ہمیشہ بھوکوں مرتے ہیں اور ایسا ہی تاثر مجھے ڈراموں, فلموں اور اپنے بزرگوں سے ملا تھا کہ شاعر, ادیب اور صحافی اپنی زندگی کی گزر بسر بہت مشکل سے کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں نے اس وادی پر خار میں آنے کا فیصلہ کرلیا. میرے بابا نے اس حوالے سے بھی ہمیشہ کی طرح میرا ساتھ دیا اور کہا یہ تمہاری زندگی کا بہت اہم فیصلہ ہے اور اسے تم نے خود ہی کرنا ہے جب میں نے میڈیا اسٹڈیز میں داخلہ لیا تو بہت سے خواب تھے جو میں نے یونیورسٹی کے ماحول کے حوالے سے اور ماس کمیونیکیشن کی تعلیم کے حوالے سے دیکھ رکھے تھے. ہمارے پہلے سمیسٹر میں ایسے اساتذہ ملے جنہوں نے ہمیں یہی بتایا صحافت کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے پاکستان میں جو پڑھایا جاتا ہے وہاں عملی زندگی میں کہیں کام نہیں آتا اور جو نہیں پڑھایا جاتا وہی کام آتا ہے .پہلا سمیسٹر بہت فرسٹریشن میں گزرا میں یہی سوچتی رہی کہ ابھی بھی وقت ہے کہ میں منزل کا رخ بدل لوں لیکن دوستوں کے مشورے سے میں نے فیصلہ کیا کہ ایک سمسٹر اور پڑھا جائے اس کے بعد بھی اگر دل نہ مانا تو میں یہ سبجیکٹ چھوڑ دوں گی. پہلے سمیسٹر میں اچھے نمبرز لئے جس سے خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوا دوسرے سمیسٹر میں میڈیا ہسٹری کا ایک سبجیکٹ تھا.ہسٹری مجھے بچپن سے ہی بہت بور لگتی تھی اور جب اس سبجیکٹ کا سنا تو پہلے ہی سے میں نے سوچ رکھا تھا کہ یہ ایک انتہائی بور سبجیکٹ ہوگا لیکن یہی میری زندگی میں تبدیلی کا نقطہ آغاز ثابت ہوا اسی سبجیکٹ نے زندگی کے بارے میں میری سوچ کے سارے دھاروں کو تبدیل کردیا ہمیں ایک ایسے شفیق اور مہربان استاد کا ساتھ ملا جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا مجھے اب تک یاد ہے وہ دن جب سر زابر سعید بدر ہمیں پڑھانے آئے تھے انہیں دیکھتے ہی ہم سب کا ایک ہی ردعمل تھا کہ یہ انتہائی سخت مزاج کے غصے والے انسان ہیں. ہم سب ہی سہمے ہوئے تھے .آواز بھی گرجدار ,چہرہ بھی انتہائی بارعب لیکن وہ اپنی ظاہری شخصیت کے بالکل برعکس ثابت ہوئے انہوں نے ہسٹری جیسا خشک اور بور سبجیکٹ اس خوبصورتی کے ساتھ پڑھایا کہ جس میں ہم نے صحافت کی تاریخ کے ساتھ ساتھ میڈیا قوانین کو بھی پڑھ ڈالا انہوں نے ہمیں ابلاغ عامہ کی تھیوریز کو بھی پڑھایا. ابلاغ عامہ کے ہمارے معاشرتی رویوں پر اثرات کو بھی پڑھایا.نظریہ پاکستان کو اس خوبصورتی کے ساتھ ہمیں سمجھایا کہ ہم پاکستان کی محبت میں مبتلا ہو گیے مغلیہ خاندان کی تاریخ بھی ایک مختلف انداز سے ہمیں سمجھائی کہ ہم جو اپنے ماضی کے حکمرانوں پر افسوس کیا کرتے تھے اب ہمیں فخر محسوس ہوتا ہے. انہوں نے ہمیں اسی مضمون میں پبلک ریلیشنز کو بھی پڑھایا ,خبر بنانا بھی سکھایا, فیچر کالم اور اداریے نویسی کا فرق بھی بتا دیا یہ سب باتیں ہمیں اس وقت محسوس نہیں ہوئیں لیکن جوں جوں ہم آگے بڑھتے چلے گئے اور کئی سمیسٹر آگے بڑھ گئے تو ہمیں احساس ہوا کہ دوسرے سمسٹر میں ہی سر زابر سعید نے یہ تمام باتیں, یہ تمام واقعات ہمیں پڑھا دیے تھے اس وقت ہمیں ان کی عظمت ان کی ڈی ووشن, ان کی قابلیت کا احساس ہوا مجھے حیرانی ہوتی تھی کہ ایک انسان 60 کتابیں کیسے لکھ سکتا ہے مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ ایک انسان اپنا وقت اس اچھی طرح سے کیسے مینیج کر سکتا ہے.. ہم ان سے اکثر پوچھتے تھے کہ آپ یہ سب کچھ ایک ساتھ کیسے مینج کو لیتے ہیں کہ کتابیں بھی لکھ رہے ہیں, پڑھا بھی رہے ہیں سیر و تفریح بھی کر رہے ہیں اور یہ وہ یہی کہتے یہ صرف اللہ سبحان و تعالیٰ کی رحمت سے ہے. ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں وہ ایک جامد شخصیت نہیں بلکہ انتہائی متحرک اور متنوع شخصیت ہیں جس کا مجھے اب پریکٹیکل زندگی میں آکر احساس ہوتا ہے. اپنے استاد محترم کی شخصیت پر ایک مختصر سا تعارف پیش کرنے کی جسارت کر رہی ہوں.اللہ سے ان کی صحت و سلامتی کی ہمیشہ دعا گو رہوں گی.

صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر ایک ایسے خانوادہ علم و ادب سے تعلق رکھتے ہیں جو کئی نسلوں سے علم و ادب کی آبیاری کا سبب رہا ہے. صاحبزادہ کے دادا جناب حکیم محمد یعقوب منیر عظیمی پنجابی زبان کے بہت معروف صاحب دیوان شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما اور دینی شخصیت بھی تھے.

صاحبزادہ زابر سعید کے والد گرامی جناب سعید بدر جن کو ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے کا شمار پاکستان کے سینئرموسٹ صحافیوں میں ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ادبی علمی شخصیات میں بھی ہوتا ہے.

صاحبزادہ زابر سعید کی شخصیت پر ان کے دادا محترم جناب حکیم محمد یعقوب منیر عظیمی اور ان کے والد گرامی جناب محترم سعید بدر کے بہت گہرے اثرات ہیں. دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال سے محبت صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر کو گویا ورثے میں ملی ہے.وہ تاریخ,سیاست,صحافت, ابلاغ عامہ,تعلقات عامہ, حالات حاضرہ, بین الاقوامی تعلقات عامہ, نفسیات, ابلاغ عامہ کے نظریات اور مختلف موضوعات پر اب تک 60 کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں سے متعدد کتابیں یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ ہیں. بلاشبہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں شاگرد اس وقت پاکستان اور پاکستان سے باہر صاحبزادہ زابر سعید بدر کا پیغام آگے پہنچا رہے ہیں

صاحبزادہ زابر سعید کا پیغام طالب علموں کے لیے ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ علم حاصل کرنے میں لگائیں اور دیگر ایسے تمام معاملات سے دور رہیں جس سے ان کے کرئیر کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے.

مزید برآں صاحبزادہ زابر سعید نظریہ پاکستان کے بہت بڑے داعی ہیں اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کی بقا و سلامتی صرف نظریہ پاکستان میں ہے اور آئندہ نسل جس نے مملکت خداداد پاکستان کی باگ دوڑسنبھالنا ہے اگر وہ نظریہ پاکستان اور بانیان پاکستان کے افکار سے دور ہو گئی تو پاکستان کی سالمیت کو انتہائی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے.

صاحبزادہ زابر سعید بدر ,سرسید احمد خان, حضرت علامہ محمد اقبال, قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیات پر اپنے طالبعلموں کی تعلیم و تربیت کیلئے خصوصی وقت صرف کرتے ہیں.

صاحبزادہ زابر سعید بدر اپنے دادا محترم جناب حکیم محمد یعقوب منیر عظیمی اور والد گرامی جناب سعید بدر صاحب کی طرح انتہائی علم دوست اور کتاب دوست شخصیت کے مالک ہیں وہ کتابوں سے بہت محبت کرتے ہیں اور اپنے طالب علموں سے توقع رکھتے ہیں وہ بھی کتابوں سے محبت کریں یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے طالب علموں کو کتاب سے محبت کا درس دیتے ہیں.

صاحبزادہ زابر سعید ایسی تمام شخصیات سے بھی دلی عقیدت رکھتے ہیں جو کتاب دوست ہیں. صاحبزادہ زابر سعید وطن عزیز کی متعدد علمی ادبی اور صحافتی تنظیموں کے ساتھ منسلک ہیں بعض معروف تنظیموں کے وہ بانی سربراہ بھی ہیں جن میں ساؤتھ ایشئن لٹریری فورم گرین رو لٹریری سوسائیٹی, لاہور جرنلسٹس فورم, اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور دیگر شامل ہیں.

صاحبزادہ صاحب کو ان کی صحافتی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے انہیں بہترین کالمسٹ,بہترین فیچر رائیٹر, بہترین بلاگر اور بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ قرار دیا جا چکا ہے ان کی متعدد کتابوں کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا گیا ہے.
معروف نقاد ڈاکٹر انور سدید نے ان کا ذہن “انسائیکلوپیڈیٹک” قرار دیا اور ان کی کتاب “صحافت سے ابلاغیات تک” سے متعلق کہا کہ میری نظر سے ایسی علمی اور صحافتی کتاب آج تک نہیں گزری. یہ تبصرہ انکا روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا.

ان کی کتاب پاکستان اور فوج کو بھی ملک گیر شہرت حاصل ہے اس کتاب کی تقریب رونمائی لاہور پریس کلب میں ہوئی جس میں ملک کی معروف ادبی,سماجی, تعلیمی شخصیات نے شرکت کی ان کی ایک اور کتاب “اردو صحافت تاریخ و فن” کو پاکستان کے علاوہ پاکستان سے باہر بھی بہت شہرت ملی اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں. صاحبزادہ زابر سعید کے اب تک ہزاروں کالمز وطن عزیز کے مؤقر ترین انگریزی اور اردو اخباروں میں شائع ہو چکے ہیں جن میں روزنامہ جنگ, روزنامہ نوائے وقت,روزنامہ ڈان روزنامہ دی نیوز انٹرنیشنل روزنامہ امروز, روزنامہ مشرق, روزنامہ پاکستان, روزنامہ خبریں, روزنامہ پاکستان ٹائمز اور دیگر شامل ہیں انکی کالموں کی کتاب صحافت دان بہت جلد منصہ شہود پر آ رہی ہے کتاب کا سرورق بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور جناب اسلم کمال صاحب نے بنایا ہے اس کتاب میں صاحبزادہ زابر سعید کے وہ کالم شامل ہیں جو روزنامہ جنگ میں گزشتہ تین سال کے دوران شائع ہوئے علاوہ ازیں ان کی ایک اور کتاب” صحافیانے” بھی پرنٹنگ کے مراحل سے گزر رہی ہے جس میں ان کے ان مضامین اور کالموں کا انتخاب کیا گیا ہے جو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوتے رہے.
دو برس پہلے ملک کے معروف ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے لاہور پریس کلب میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے شاگرد کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا
“زابر سعید ایک ایسی کتاب ہے جس کو میں نے بہت توجہ سے پڑھا ہے وہ ایک متحرک سماجی شخصیت ہے سوشل میڈیا پر چھایا ہوا ہے وہ لاہور کی تمام اہم علمی اور ادبی محافل اور مجالس کی رونق ہے صحافت اور ابلاغیات کے موضوع پر اس کا کام قابل قدر ہے اور کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر اس نے اپنی رائے کا اظہار نہ کیا ہو اور اس پر تحقیقی کام نہ کیا ہو اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کی شخصیت میں یکسانیت نہیں ہے بلکہ تنوع ہے, زابر سعید تنہا پاکستان کا پہلا آن لائن میڈیا اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ چلا رہا ہے”
ابلاغ عامہ کے بین الاقومی شہرت یافتہ ایک بہت بڑے معتبر استاد کا صاحبزادہ زابر سعید بدر کو اس طرح کا خراج تحسین پیش کرنا ان کی علمی ادبی اور صحافتی خدمات کا گویا اعتراف ہے
ملک کے نامور صحافی اور ادیب جناب محمود شام صاحب ان کے متعلق کہتے ھیں

“صاحبزادہ زابر سعید نئی اور گذشتہ نسلوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہے ہیں جو ایک ترقی پذیر معاشرے کو ترقی یافتہ کی منزل تک لے جانے میں ناگزیر ہوتا ہے, زابر سعید اس میدان کے واحد شہسوار ہیں جو انتہائی استقامت سے اس قومی فریضے کو انجام دے رہے ہیں, پچاس کتابیں نئی نسل کو دے چکے ہیں جن میں تحقیق بھی ہے تشکیل بھی,تصنیف بھی, تالیف بھی, وہ ابلاغ عامہ کے استاد بھی ہیں. سچ جانئے,مجھے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے ”
پاکستان کے سینئر موسٹ صحافی کی طرف سے یہ بہت بڑا خراج تحسین ہے جو صاحبزادہ صاحب کو پیش کیا گیا.
جناب زابر سعید بدر کو ایک یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے لیے پہلی مرتبہ “صحافت دان” کا لفظ استعمال کیا گیا اس حوالے سے یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر وحید الرحمن خان لکھتے ہیں.
“زابر سعید 50 کتابوں کا مصنف ہے یہ جملہ سن کر محفل پر ایک سناٹاچھاگیا, کچھ چپکے ہو رہے یہ جملہ نہیں تھا زبردست کا ٹھنڈا تھا سر پر, نام بھی زابر ہے, زابر سعید صحافت کے بدر کامل سعید بدر کا فرزند ارجمند ہے اور ایک صحافت دان ہے. زابر سعید کے لہو میں صحافت شامل ہے اس لیے اس کی صحافت کا رنگ زرد نہیں سرخ ہے رنگ شناس لوگ جانتے ہیں کہ سرخ رنگ جوش جذبے اور سچائی کی علامت ہے وہ ایک پرجوش اور حق پرست صحافی ہے وہ صرف صحافی نہیں بلکہ صحافت کا استاد بھی ہے اسے باد مخالف میں اڑنا پسند ہے حلقہ یاراں میں وہ ہمیں وہ قہقہےلگاتا ہے صف دشمناں میں وہ طبل جنگ جاتا ہے وہ زندگی سے معمور شخص ہے, 50 کتابوں کا مصنف ہے, وہ ایک صحافت دان ہے……… کسی نے سچ کہا ہے

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ
استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں